قلعہ لاہور

قلعہء لاہور، جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کے صوبہء پنجاب کے شہر لاہور میں واقع ہے۔ یہ قلعہ شہر کے شمال مغربی کونے پر واقع ہے۔ گو کہ اس قلعہ تاریخ زمانہء قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِ تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1605-1556) نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد آنے والی نسلیں بھی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہذٰا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر و روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔

قلعہء لاہور، جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کے صوبہء پنجاب کے شہر لاہور میں واقع ہے۔ یہ قلعہ شہر کے شمال مغربی کونے پر واقع ہے۔ گو کہ اس قلعہ تاریخ زمانہء قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِ تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1605-1556) نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد آنے والی نسلیں بھی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہذٰا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر و روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔ قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔ 1981ء میں یونیسکو نے اس قلعے کو شالامار باغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔

تاریخ

قلعہء لاہور کی تعمیر کے حوالے سے مختلف مبہم اورروایتی حکایات موجود ہیں۔ تاہم 1959ء کی کھدائی کے دوران جو کہ محکمہء آثارِ قدیمہ نے دیوان عام کے سامنے کی، جس میں محمود غزنوی 1025ء کے دور کا سونے کا سکہ ملا۔جو کہ باغیچہ کی زمین سے تقریبا 62 .7 میٹر گہرائی میں ملا۔ جبکہ پانچ میٹر کی مزید کھدائی سے ملنے والے قوی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر آبادی محمود غزنوی کے لاہور فتح کرنے سے بھی پہلے تقریباً 1021ء میں موجود تھی۔ مزید برآں یکہ اس قلعہء کی نشانیاں شہاب الدین غوری کے دور سے بھی ملتی ہیں جب اُس نے 1180ء تا 1186ء لاہور پر حملوں کئے تھے۔

قلعہء لاہور وقت کے تناظر میں

یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ قلعہء لاہور کی بنیاد کس نے اور کب رکھی تھی چونکہ یہ معلومات تاریخ کے اوراق میں دفن ہوچکی ہیں، شاید ہمیشہ کے لئے، تاہم محکمہء آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران ملنے والے اشارات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ 1025ء سے بھی بہت پہلے تعمیر کیا گیا تھا، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

  • 1241ء - منگولوں کے ہاتھوں تباہ ہوا۔
  • 1267ء - سلطان غیاث الدین بلبن نے دوبارہ تعمیر کرایا۔
  • 1398ء - امیر تیمور کی افواج کے ہاتھوں تباہ ہوا۔
  • 1421ء - سلطان مبارک شاہ سید نے مٹی سے دوبارہ تعمیرکروایا۔
  • 1432ء - قلعے پر کابل کے شیخ علی کا قبضہ ہوگیا اور اُس نے قلعے کو شیخا کھوکھر کے تسلط کے دوران پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرتے ہوئے اس کی مرمت کروائی۔
  • 1566ء - مغل فرمانروا اکبر نے پکی اینٹوں کی کاریگری سے، اس کی پرانی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کروائی اور شاید اسی وقت اس کو دریائے راوی کی سمت وسعت دی تقریباً 1849ء میں، جب راوی قلعہء لاہور کی شمالی دیوار کے ساتھ بہتا تھا۔ اکبر نے “دولت کدہء خاص و عام“ بھی تعمیر کروایا جوکہ “جھروکہء درشن“ کے نام سے مشہور ہے اور اس کے علاوہ مسجد دروازہ وغیرہ بھی بنوایا۔
  • 1618ء - جہانگیر نے “دولت کدہء جہانگیر“ کا اضافہ کیا۔
  • 1631ء - شاہجہاں نے شیش محل تعمیر کروایا۔
  • 1633ء - شاہجہاں نے “خوابگاہ“، “حمام“، “خلوت خانہ“ اور “موتی مسجد“ تعمیر کروائی۔
  • 1645ء - شاہجہاں نے “دیوان خاص“ تعمیر کروایا۔
  • 1674ء - اورنگزیب نے انتہائی جسیم عالمگیری دروازہ لگوایا۔
  • 1799ء یا 1839ء - اس دوران شمالی فصیل جوکہ کھائی کے ساتھ واقع ہے، سنگ مرمر کا “ہتھ ڈیرہ“، “حویلی مائی جنداں“، “بارہ دری راجہ دھیاں سنگھ“ کی تعمیر رنجیت سنگھ نے کرائی، ایک سکھ حکمراں جوکہ 1799ء تا 1839ء تک حاکم رہا۔
  • 1846ء - برطانیہ کا قبضہ
  • 1927ء - قلعے کی جنوبی فصیل کو منہدم کرکے، اس کی مضبوط قلعے کی حیثیت کو ختم کرکے اسے برطانیہ نے محکمہء آثارِ قدیمہ کو سونپ دیا۔

قلعہء لاہور کی دیدہ زیب تصاویر

قلعہء لاہور کی تصاویر جو اس کی شان و شوکت اور جاہ و حشم کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

تعمیری ڈھانچہ

مغلیہ سلطنت میں کابل، ملتان اور کشمیر کے فرمائرواؤں کے حملے کے پیشِ نظر لاہور کی جغرافیائی اہمیت اس بات کی متقاضی تھی کہ قلعہء لاہور کو پکی اینٹوں کی کاریگری کرکے ایک مضبوط قلعہ بنایا جائے۔ اس کے تعمیری ڈھانچے میں فارسی رنگ چھلکتا ہے جوکہ مختلف شاہوں کی فتوحات کے ساتھ ساتھ گہرا ہوتا چلا گیا۔ یہ قلعہ واضح طور پر دو حصوں میں منقسم ہے پہلا حصہء منتظم، جو کہ تمام تر داخلی راستوں سے بخوبی جُڑا ہوا ہے اور اس کے اندر تمام باغیچے اور شاہی حاضرین کے لئے دیوان عام بھی شامل ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ نجی و خفیہ رہائشگاہوں پر مشتمل ہے جوکہ شمالی سمت میں صحن اور دالانوں میں پھیلے ہوئے ہیں، جن تک رسائی کے لئے “ہاتھی دروازہ“ استعمال ہوتا تھا۔ اسی میں شیش محل بھی شامل ہے، وسیع آرام دہ کمرے اور چھوٹے باغیچے بھی اس میں موجود ہیں۔ بیرونی حصے کی دیواریں نیلی فارسی کاشی کاری کا بہترین نمونہ ہیں۔ اس کا اصل داخلی راستہ “مریم زمانی مسجد“ کے سامنے ہے جبکہ بڑا عالمگیری دروازہ حضوری باغ کی طرف کھلتا ہے، جہاں عظیم الشان بادشاہی مسجد بھی واقع ہے۔

تبصرہ کریں
اشارے اور اشارے
بذریعہ بندوبست:
Ayeshah Alam Khan
19 November 2011
Be sure to pay a little extra and get a guide... you can pay extra and get into places that usually are not open to the public... its a scam I'm sure but worth the few extra bucks
Jay Kazmi
11 January 2014
Magestic! You really feel that you are living and wandering around in that time period. Not preserved and no notable work going on
ahmad software
23 April 2019
This tool can captures contact information such as name, email, business name, address, phone number, websites, messenger ids, skill, country, profile link and other important information LinkedIn.
Ibrahim Ahmed
15 August 2014
A great historical place but please hire a guide so u could collect information in detail about the castle ????
P
11 January 2019
Get a guide, especially if you have little time.
Ahmad Balghari
25 December 2014
Once a stronghold of 800 year old dynasty. Stunning view from kings chabotra of lahore.
Pearl Continental Lahore

$161 شروع ہو رہا ہے

Luxus Grand Hotel

$95 شروع ہو رہا ہے

GRAND MILLENNIUM HOTEL LAHORE

$35 شروع ہو رہا ہے

Hotel One The Mall Lahore

$72 شروع ہو رہا ہے

Safari hotel

$37 شروع ہو رہا ہے

The Residency Hotel

$90 شروع ہو رہا ہے

آس پاس کی تجویز کردہ مقامات

تمام دیکھیں تمام دیکھیں
خواہشات کی فہرست میں شامل کرنا
میں یہاں رہا ہوں
ملاحظہ کیا
مینار پاکستان

پس منظر

خواہشات کی فہرست میں شامل کرنا
میں یہاں رہا ہوں
ملاحظہ کیا
نولکھا

نولکھا پنجاب، پاکستان کے شہر لاہور میں واقع قلعہ لاہور کے شمالی حصے می

خواہشات کی فہرست میں شامل کرنا
میں یہاں رہا ہوں
ملاحظہ کیا
شیش محل

شیش محل، پاکستان کے شہر لاہور کے شاہ برج میں مغل دور کی عمارت ہے

خواہشات کی فہرست میں شامل کرنا
میں یہاں رہا ہوں
ملاحظہ کیا
موتی مسجد

موتی مسجد موتی مسجد, لاہور سترہویں صدی کی مذہبی عمارتوں میں سے ایک ہے

خواہشات کی فہرست میں شامل کرنا
میں یہاں رہا ہوں
ملاحظہ کیا
داتا دربار

داتا دربار لاہور، پاکستان کا بہت مشہور دربار یا مزار ہے جو تقریباً ایک

خواہشات کی فہرست میں شامل کرنا
میں یہاں رہا ہوں
ملاحظہ کیا
لاہور چڑیا گھر

چڑیا گھر لاہور جو پاکستان کے صوبہ پنجاب میں واقع ہے، 1872ء م

خواہشات کی فہرست میں شامل کرنا
میں یہاں رہا ہوں
ملاحظہ کیا
شالامار باغ

شالیمار باغ یا شالامار باغ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے لاہور میں 1641ء-16

خواہشات کی فہرست میں شامل کرنا
میں یہاں رہا ہوں
ملاحظہ کیا
واہگہ

Wagah (Punjabi: ਵਾਘਾ, Hindi: वाघा, Urdu: واہگہ) is the only road bor

اسی طرح کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز

تمام دیکھیں تمام دیکھیں
خواہشات کی فہرست میں شامل کرنا
میں یہاں رہا ہوں
ملاحظہ کیا
قلعہ آگرہ

قلعہ آگرہ * قلع

خواہشات کی فہرست میں شامل کرنا
میں یہاں رہا ہوں
ملاحظہ کیا
لال قلعہ

کے نزدیک واقع لال قلعہ مغلیہ سلطنت کے سنہری دور کی یادگار ۔اسے سترو

خواہشات کی فہرست میں شامل کرنا
میں یہاں رہا ہوں
ملاحظہ کیا
شالامار باغ

شالیمار باغ یا شالامار باغ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے لاہور میں 1641ء-16

خواہشات کی فہرست میں شامل کرنا
میں یہاں رہا ہوں
ملاحظہ کیا
Lekh Castle

Lekh Castle (Azerbaijani: Löh qalası), sometimes named Lev Castle is l

خواہشات کی فہرست میں شامل کرنا
میں یہاں رہا ہوں
ملاحظہ کیا
Belém Tower

Belém Tower (in Portuguese Torre de Belém, pron. Шаблон:IPA2) is a fo

اسی طرح کی تمام جگہیں دیکھیں