ہرم خوفو (Pyramid of Khufu) جسے گیزہ کا عظیم ہرم بھی کہا جاتا ہے گیزہ میں تین اہراموں میں سب سے قدیم اور سب سے بڑا ہے۔
ذرائع ابلاغ کی رپورٹیں اٹھاکر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ مصر میں آنے والے انقلاب نے جہاں ملک کو سیاسی اتھل پتھل کا شکار کر دیا ہے وہیں کفن چوروں پر مشتمل ایسے گروہوں کو بھی پیدا کردیا ہے ہے جو غیر قانونی طور پر مدفون خزانے تلاش کرکے چاندی کاٹ رہے ہیں۔غزہ کے علاقے میں واقع اہرام کے نزدیک مقیم افراد کا کہنا ہے کہ وہاں زمین میں نمودار ہونے والے گڑھوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور یہ دعوے غلط نہیں۔ایک صحرائی راستے کے قریب اور اہرام سے ذرا دور ہمیں ایک ڈیڑھ میٹر قطر کا گڑھا ملا جس کی گہرائی کا اندازہ لگانے کے لیے اس میں پتھر پھینک کر تہہ سے ٹکرانے کی آواز سنی گئی۔اس گڑھے سے کچھ فاصلے پر ایک اور سرنگ تھی اور گڑھے کے برعکس اس میں داخلہ نسبتاً آسان تھا۔معائنہ کار جیسے جیسے اندر جاتے گئے، ہمیں پتھروں پر اوزاروں کے نشانات اور کھدائی کے آثار دکھائی دینے لگے۔
اس علاقے میں آثارِ قدیمہ کے انچارج ڈاکٹر اسامہ الشمی کا کہنا ہے کہ یہ واضح ہے کہ لوگ مدفون خزانوں کی تلاش میں کھدائی کر رہے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جب وہ کھدائی کریں گے تو انہیں سونا ملے گا جس سے وہ راتوں رات امیر ہو جائیں گے۔‘ڈاکٹر اسامہ کے مطابق اس قسم کے افراد کو روکنا یا انھیں اس عمل سے باز رکھنا خطرناک ہے کیونکہ ان میں سے اکثر مسلح ہوتے ہیں۔غیر قانونی کھدائیوں کا یہ عمل صرف غزہ ہی میں ہو رہا۔ قاہرہ سے ایک گھنٹے کی مسافت پر دہشور کے مقام پر زمین کھدائی کی وجہ سے چاند کی سطح کا سا منظر پیش کرنے لگی ہے۔یہی نہیں بلکہ سقارہ اور ابوصر میں مسلح افراد نے ایسے گوداموں پر حملے کر کے لوٹ مار کی ہے جہاں حکومت کی سرپرستی میں ہونے والی کھدائی میں دریافت ہونے والے آثارِ قدیمہ رکھے گئے تھے۔اس مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش میں ہم جنوبی مصر میں الاقصر جا پہنچے جہاں ایک زمانے میں قدیم شہر تھیبز آباد تھا۔ یہاں بادشاہوں کی وادی کے قریب زمین آثارِ قدیمہ کے خزانوں سے مالامال ہے تاہم گذشتہ دو برس میں پولیس کو ان آثارِ قدیمہ کی تلاش میں غیرقانونی کھدائی کی درجنوں شکایات موصول ہوئی ہیں۔
سکیورٹی فورسز نے معائنہ کاروں کو ایک ناقابلِ یقین ویڈیو فوٹیج دکھائی جو سرنگوں کے ایک پرپیچ اور طویل سلسلہ کے بارے میں تھی جسے حال ہی میں دریافت کیا گیا ہے۔الاقصر میں اکثر غیرقانونی کھدائی کا سلسلہ ان آثارِ قدیمہ کے قریب واقع کسی گھر کے دالان میں شروع ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کی نشاندہی اور بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں مصریات کے استاد پروفیسر کینٹ ویکس کے بقول صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔الاقصر میں سیاحت اور آثارِ قدیمہ کی پولیس کے سربراہ بریگیڈیئر حسنی حسین کے مطابق ’غیرقانونی کھدائی ہمیشہ سے ہوتی رہی ہے لیکن انقلاب کے بعد اس میں اضافہ ہوا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہاں کوئی سیکورٹی ہی نہیں ہے۔‘وہ اس امکان کو رد کرتے ہیں کہ مصر میں اب بھی زمین میں نمودار ہونے والے ایسے گڑھے موجود ہیں ہیں جن کے بارے میں پولیس کو معلوم نہیں ہے جبکہ اب تک جو بھی خزانہ چوری ہوا ہے اسے برآمد کرلیا گیا ہے۔
بریگیڈیئر حسین کے بقول ’ہمیں اس بات کا علم ہے کہ یہاں کیا ہورہا ہے، لیکن مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ ہماری محنت کی وجہ سے اس ملک میں کہیں سے بھی کچھ چوری نہیں ہوا ہے۔‘بدقسمتی سے یہ حقیقت نہیں ہے اور اس کو ثابت کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔مصر میں غیر مدفون خزانوں کی تلاش کے کھدائی اور قدیم فن پاروں کی تجارت غیر قانونی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے قاہرہ میں قدیم ساز و سامان فروخت کرنے کی بڑی بلیک مارکیٹ وجود میں آ گئی ہے۔معائنہ کاروں کا ایک مقامی ساتھی ایسے ہی ایک تاجر سے یہ کہہ کر ملنے گیا کہ وہ ایک برطانوی تاجر کی جانب سے آیا ہے جو مصریات کے ماہر ہیں۔اس تاجر نے معائنہ کارکے دوست پر یقین کیا اور اسے قدیم فن پارے دکھائے جو ان کے بقول 3ہزار سال پرانے تھے۔اس تاجر نے اپنا چہرہ نہ دکھانے کی شرط پر ان مجسموں کی منظر کشی کی اجازت دی اور ان فن پاروں کی ابتدائی قیمت5 ہزار ڈالر بتائی۔پرفیسر کینٹ ویکس کا کہنا ہے کہ فن پاروں کی چوری قدیم زمانے سے ہو رہی ہے لیکن گذشتہ دو برسوں اس میں بے حد اضافہ ہوا ہے جبکہ اس طرح کے واقعات کی اہم وجہ معاشی حالات ہیں۔پروفیسر کینٹ ویکس کا خیال ہے کہ گذشتہ کچھ عرصوں مصر کے لوگوں کو ان قدیم ساز و سامان کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوگیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’شاید کئی ہزار قدیم اثاثے چوری ہوچکے ہیں۔ ہمیں تو اس بارے میں علم ہی نہیں ہے۔‘غزہ میں رہنے والے مقامی افراد نے بتایا کہ گڑھوں کا نمودار ہونا عام بات ہے جبکہ بعض مرتبہ انہوں نے صحرا میں ان گڑھوں کے قریب ٹرک کھڑے دیکھے ہیں۔