کتب خانہ اسکندریہ کی بنیادبطلیموسی فرمانروا سوتر اول نے اسکندریہ کے مقام پر رکھی لیکن اس کے بیٹے فیلاڈلفس (Philadelphus) کی علم پروی اور کتابوں سے دلچسپی نے کتب خانہ اسکندریہ کوجلد ہی اس قابل بنا دیا کہ ایتھنز کی علمی وثقافتی مرکزیت وہاں سمٹ آئی۔اصحاب علم وفضل دور دور سے اس علمی مرکز کی طرف جوق در جوق کھنچے چلے آتےتھے۔
کتب خانہ اسکندریہ کا قیام بھی نینوا کے کتب خانہ کی طرح شاہی سرپرستی میں عمل میں آیا۔ اگرچہ دونوں کتب خانوں کے قیام کا درمیانی وقفہ چار صدیوں پر محیط ہے لیکن ان دونوں کتب خانوں میں بعض امور میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ باوجود مطالعاتی مواد میں اختلاف (نینوا کا کتب خانہ جوکتب خانہ اشور بنی پال کے نام سے جانا جاتا ہے اس میں الواح سفالی یعنی مٹی کی تختیوں پر لکھا جاتا تھااور اسکندریہ کے کتب خانے میںقرطاس مصریپر) کے ماہرین نے ان دونوں کی اندونی تنظیم، مواد کی درجہ بندیاور کتب کی پیداوار کے طریق کار میں کافی حن تک مطابقت موجود ہے۔ یہ کتب خانہ ایک کثیر المقاصد عجا ئب گھر میں قائم کیا گیا تھا جو رصدگاہ، ادارہ علم الابدان، ادارہ نشر و اشاعت اور کتب خانہ کی عمارت پر مشتمل تھا۔ مورخین کے نزدیک اس علمی ادارے کو دنیا کی سب سے پہلی جامعہ یا سائنسی اکادمی ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔
کتب خانہ اسکندریہ میں کتابوں کا ذخیرہ زیادہ تعداد میں پیپرس اور جھلی کے رول یا پلندوں پر مشتمل تھا۔چونکہ مصری لوگ پہلےپیپرس (قرطاس مصری) کو بطور تحریری مواد دریافت کر چکے تھے۔جس کی دریافت کا نوع حضرت مسیح علیہ السلام سے کم و پیش چارہزار برس پہلے عام ہو چکا تھا۔ اس پر لکھے ہوۓ نوشتے رول یاپلندہ کی شکل میں ہوتے تھے اور ان کے دونوں کناروں پر دو گول لکڑی کے ٹکڑے لگا دیےجاتے تھے جن پر اس کو لپیٹ دیا جاتا۔
یونانی عہد کے کتب خانون کا ایک اہم پہلو یہ بھی رہا ہے کہ ان کے ذخیرہ علمی میں غیر ملکی کتب بھی موجود تھیں جن میں زرتشت کی تحریریں اور بعض سنسکرت کی کتابوں کی موجودگی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ کتب خانوں میں کتابوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے متعدد اقداقات کئے جاتے تھے۔یونانی جالینوس لکھتا ہے کہ
” | بادشاہ بطلیموسسوم کے حکم کے مطابق جونہی کوئی جہاز بندرگاہ میں داخل ہوتا تو سیاحوں اور مسافروں کی تلاشی لی جاتی اگر ان کے پاس کتابوں کا کوئی ذخیرہ ہوتا تو بحق سرکار ضبط کر کے کتب خانے کی زینت بنا دیا جاتا اور ان کتب کی نقول تیار کرا کرمالکوں کو تبادلہ میں فراہم کر دی جاتی تھیں۔ | “ |
مزید برآں ایتھنز میں قحط سالی کے دوران یونان کو غلہ اس شرط پربھیجا جاتا تھا کہ وہاں سےایسکیوسسوفا کلینر اور یوری پائیڈزکی تصانیف اسکندریہ کے کتب خانےکو منتقل کردی جائیں۔ مشہور مستشرق ول ڈیورنٹ کے بیان کے مطایق لوگ دور دور سے پرانے نسخے اور نادر محظوطات اسکندریہ کے کتب خانے میں منہ مانگے داموں فروخت کرتے تھے۔لیکن سب سے اہم اضافہ اس وقت ہوا جب بطلیموس سوم نے 286 ق-م میںکتب خانہ ارسطو اور تھیوفریسٹس کا بڑا حصہ حاصل کر کے اس میں مدغم کر دیا۔
کتب خانے میں کتابوں کی تعداد میں اگرچہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ تاہم مورخین اس بات پر متفقہ ہیں کہ اس زمانے میں اس عظیم کتب خانے سے بڑھ کر کوئی دوسرا سرمایہ علمی موجود نہ تھا۔بعض مورخین نے کتب خانے میں مسودات کی تعداد 2لاکھ اور بعض نے 5 لاکھ تک بیان کی ہے، جبکہ کے کچھ کے نزدیک یہ تعداد 7 لاکھ تھی۔ کیلی ماکس کے بیان کے مطابق اس کتب خانے کے دو حصے تھے۔بیرونی حصے میں 42ہزار اور اندرونی حصے میں 4 لاکھ نوے ہزار کتابیں تھیں جو مصری، عبرانی، لاطینی اور دیگر زبانوں میں لکھی گئی تھیں۔50 ق-م میں اس عظیم کتب خانے میں سات لاکھ کتابیں موجود تھیں۔اس کتب خانہ کی نصف کتابیں47 ق-م میں جولیس سیزر کے لشکر نے جلا کر خاکستر کر دیں۔
اس عظیم کتب خانے کی ترتیب و تنظیم کے بارے میں جیسا کہ اوپر ذکر کیا گيا ہے ، اس کو متعدد شعبوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ جن میں دارلآثار(عجائب گھر)، دارالترجمہ، شعبہ نشر و اشاعت اور دارالمطالعہ(لاہبریری) قابل ذکر ہیں۔ کیلی ماکس کے ذمہ جو اس کتب خانے کےمہتمم کا دست راست تھا، کتابوں کی مضمون وار تقسیم اور کیٹلاگ سازی کا کام تھا۔کتاب کا اندراج کرتے وقت عنوان، مصنف کا علمی منصب، علمی استعداد اور مصنف کی دیگر تصانیف کے بارے میں ضروری معلومات وغیرہ تک شامل کی جاتی تھیں۔ کیلی ماکس کوقومی کتابیاتمرتب کرنے کی پوری ذمہ داری سونپی گئی تھی جس کا ذکر اوپر آیا ہے۔
تاریخ کتب خانہ کے ماہر "ہیسل"(Hessel)کے بقول کتابوں کی درجہ بندی مضمون وار کی جاتی تھی۔کتابیں ابجدی ترتیب سے آراستہ کی جاتی تھیں یہ 120 بڑے بڑے موضوعات میں کی گئی تھی۔ جس کو مزید ذیلی موضوعات میںتقسیمکیا گیا تھا۔کالی ماکس کی درجہ بندی کی تقسیم مندرجہ ذیل 12 موضوعات یعنی
پر مشتمل تھی۔ کتابیں ایک طویلقرطاس مصری(پیپرس)کے رول یا پلندہ کی شکل میں ہوتی تھیں۔ جنہیں یا تو افقیشکل میں الماریوں کے خانوں کے اندر یا پھرعمودیطورپرمخروطیمرتبانوں میں رکھا جاتا تھا۔ ان رول کو حوالہ کے لیے بار بار کھولنے اور لپیٹنے میں خاصی دقت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔اور بقول کیلی ماکس
” | ایک بڑی کتاب ایک بڑی مصیبت ہوتی ہے(تھی)۔ | “ |
اس نے اس مشکل پر قابو پانے کے لیے کتابوں کو حصوں میں تقسیم کرنے کی "طرح" ڈالی۔جس سے کتابوں کے مطالعہ کرنے میں کافی آسانی پیدا ہوگئ۔بقول جالینوس(Galen)نئی حاصل شدہ کتابوں کو فوری طور پر الماریوں کی زینت نہ بنائی جاتیں بلکہ ایک ہی مضمون کی کتابیں یکجا کی جاتیں۔ بعد میں ماہرین مضامین رولز کو ان کے مندرجات کے مطابق ترتیب دیتے تھے۔
کتب خانہ اسکندریہ کے عملے میں یونان کے نامور اہل قلم اور علماء شامل تھے۔ جن میں مشہور ماہر لسانیاتاورشاعرکیلی ماکس، ایراٹوستھینز (Eratosthenes)مشہور بازنطینی فلسفی ارسٹوفینز (Aristophanes),ارسٹاکس اور زینوڈوٹس(Zenodotus)قابل ذکر ہیں۔
تقریباً سات صدیوں تک قائم رہنے والے اس کتب خانے کا انجام بڑا عبرتناک ہوا۔391 میں تھیوفلس اعظم (Patriarch Theophilus)کے حکم سے عیسائیوں نے اس کی کتابوں کو نیست و نابود کر دیا۔کیونکہ ان کے خیال میں اس سے کفرپھیلنے کا اندیشہ تھا۔ رہی سہی کسراورلین(Aurelian)کے عہد میں خانہ جنگی کے دوران پوری کر دی گئی۔
ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا رہا ہے کہ اس کو مصرکی فتح کے وقت مسلمانوں نے نذرآتش کر دیا اس الزام کی تردید خود مستشرقین مثلاً ایڈورڈ گبن(Gibbon) اور قلپ کے ہٹی(P.K Hitti)وغیرہ نے بھی کی ہے، ان کی تحقیق کے مطابق 47 ق-م جب قیصر نے اسکندریہ کا محاصرہ کیا تو تباہی اس کتب خانہ کا مقدر بن گئی۔ یہ کتب خانہ ظہوراسلام سے 200 سال پہلے مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکا تھا۔